بغیر کام کے دولت
کریڈٹ: پراساناپِکس

کام کے بغیر دولت” ان سات سماجی گناہوں میں سے ایک ہے جسے مہاتما گاندھی نے اپنے ہفتہ وار اخبار،ینگ انڈیا میں شائع کیا۔ کام کے بغیر دولت” کا مطلب ہے کہ ان کو کمانے کے لیے درکار محنت یا جدوجہد کئے بغیر امیر یا دولت مند بننا۔

کون نہیں چاہتا کہ اُس کے پاس زیادہ پیسہ ہو؟ یہ صرف انسان ہے کہ وہ زیادہ چاہتا ہے۔ اور اب، ہم اس کے لیے کام کیے بغیر اسے فوری اور آسانی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ حیرت کی بات نہیں، گھوٹالے، غبن، مالی فراڈ، اور آن لائن جُوئے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بے لگام خواہش، غیر دانشمندانہ خرچ، اور ایک لاپرواہ طرز زندگی بھی آسان پیسے کے لالچ کو ہوا دے سکتا ہے۔

اس مضمون میں، میَں دولت اور کام کو بائبل کے نقطہ نظر سے دیکھوں گا تاکہ آج ہمارے لیے سبق حاصل کیا جا سکے۔

کام کے بغیر دولت کے خطرات

کام کے بغیر دولت” وراثت میں ملنے والی دولت یا غیر فعال آمدنی کے سلسلے کا حوالہ نہیں دیتی۔ بلکہ، اس سے مراد قدر، کردار اور اخلاقیات کی قیمت پر کمائی گئی دولت ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دوسرے لوگوں یا ان کے حالات کا ناجائز فائدہ اٹھا کر امیر ہو جاتے ہیں۔

پیسہ بدعنوانی کا اثر رکھتا ہے۔ یہ رویوں، عقائد اور انتخاب کو متاثر کرتا ہے۔ بہت کم لوگ لالچ کی طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بغیر کام کے کمائی گئی دولت — چوری، بے ایمانی کے ذریعے، حد سے زیادہ شرح سود، اور استحصالی ماحولیاتی نظام — ہمارے معاشرے کو تباہ کن طور پر متاثر کر سکتا ہے۔

آسان رقم کے بہت سے خطرات میں سے ایک امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم ہے۔ امیر امیر تر ہوتے جاتے ہیں (اکثر اس کے لیے کام کیے بغیر)، اور غریب غریب تر ہوتے جاتے ہیں (غربت سے بچنے کے لیے محنت کرنے کے باوجود)۔

بائبل اور دولت

کلامِ خُدا ہمیں دولت کے خطرات اور اس کے بدعنوان اثر و رسوخ کے بارے میں خبردار کرتا ہے۔ تاہم، یہ دولت کو خدا کی طرف سے محنت اور مستعدی کے بدلے ایک نعمت بھی تسلیم کرتا ہے۔

‘‘جو ڈھیلے ہاتھ سے کام کرتا ہے کنگال ہو جاتا ہے لیکن محنتی کا ہاتھ دولت مند بنا دیتا ہے۔’’ (امثال 4:10 NIV)

مزید برآں، بائبل سکھاتی ہے کہ دولت ایمانداری کے ذریعے حاصل کی جانی چاہیے، نہ کہ دوسروں کا استحصال کرنے یا فائدہ اٹھانے سے۔ بائبل کے بہت سے اقتباسات ہمیں بتاتے ہیں کہ دھوکہ دہی سے امیر بننا کتنا خطرناک ہے اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو کیا ہوگا۔

‘‘ تُو اپنے گھر میں طرح طرح کے چھوٹے اور بڑے پیمانے بھی نہ رکھنا۔’’ (NIVاستثنا 14:25)

 ‘‘شریر کی کمائی باطل ہے لیکن صداقت بونے والا حقیقی اجر پاتاہے۔  ’’ (امثال 18:11 NIV)

’’اے دولت مندو ذرا سُنو تو! تُم اپنی مُصیبتوں پر جو آنے والی ہیں روؤ اور واویلا  کرو ۔ تُمہارا مال بِگڑ گیا اور تُمہاری پوشاکوں کو کیڑا کھا گیا۔‘‘  (یعقوب 5: 1-3)۔

غیر دانشمندانہ اخراجات کا خطرہ

آسان دولت کی آرزُو کی ایک وجہ صارفی ذہنیت ہے۔ بائبل ہمیں لاپرواہی سے خرچ کرنے اور ضرورت سے زیادہ قرض کے خلاف خبردار کرتی ہے۔ یہ ہمیں اپنے وسائل کی بچت اور ذمہ دار رویہ اپنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

’’مالدار مسکین پر حُکمران ہوتا ہے اور قرض لینے والا قرض دینے والے کا نوکرہے۔ ‘‘                                                                                  (امثال7:22)   

‘‘ قیِمتی خزانہ اور تیل داناؤں کے گھر میں ہیں لیکن احمق اُن کو اُڑا دیتا ہے۔ (امثال 20:21)۔ ’’

 ’’کاہل آدمی جاڑے کے باعث ہل نہیں چلاتا اِس لئے فصل کاٹنے کے وقت وہ بھیک مانگے گا اور کچھ نہ پائے گا۔ ‘‘ (امثال 4:20)۔

کلامِ خُدا ظاہر کرتا ہے کہ پیسے کو لاپرواہی سے خرچ کرنے کی بجائے بچانا اور ذمہ دار رویہ اپناناکتنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اپنے وسائل کو ضائع کرنے کی بجائے منصوبہ بندی کرنا اور مستقبل کے لیے تیار رہنا کتنا ضروری ہے۔ شاگردیت کے لئے دعوت مستعدی اور مالی ذمہ داری کی دعوت بھی ہے۔

ہم جینے کے لیے کماتے ہیں اور کمانے کے لیے نہیں جیتے

بائبل میں دولت کے حصول اور کام کی قدر کے بارے میں بہت کچھ بتایا گیا ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کام اہم ہے کیونکہ اس سے خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ بائبل کہتی ہے کہ دولت خدا کی طرف سے آتی ہے، اور جو ایماندار ہیں، محنت کرتے ہیں، اور اپنی ذمہ داریوں کا خیال رکھتے ہیں وہ اسے پاتے ہیں۔

 ’’پس انسان کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیں کہ وہ کھائےاور  پیئے اور اپنی ساری محنت کے درمیان خُو ش ہو کر اپنا جی  بہلائے ۔ میں نے دیکھا کہ یہ بھی خُدا کے ہاتھ سے ہے۔‘‘                             (واعظ24:2)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں دولت کی تعمیر میں محنت اور صبر کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

’’ جو دولت بطالت سے حاصل کی جائے کم ہو جائے گی لیکن محنت سے جمع کرنے والے کی دولت بڑھتی رہے گی۔‘‘   (امثال 11:13)

قناعت کی فضیلت

قناعت بغیر کام کے دولت کے حصول کا علاج ہے۔ حقیقی دولت مادی املاک سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ خدائی زندگی گزارنے اور خوش دل رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ خیال ناقابل یقین حد تک آزاد ی بخش ہو سکتا ہے۔

پولوُس لکھتا ہے، ”ہاں  دینداری قناعت کے ساتھ بڑا نفع  کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ ہم دنیا میں کچھ نہیں لائے اور نہ ہی ہم اُس میں  سے کچھ لےجا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے پاس کھانے اور پہننے کو  ہے تو ہم اُسی پر قناعت   کریں۔ ” (1 ۔تیمتھیس 6:6-8)

یسوع ہمیں رزق کے لیے خُدا کی طرف دیکھ کر قناعت کی زندگی کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ہمیں مادی املاک کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فکرمند نہ ہونے کی بھی ترغیب دیتا ہے۔

”اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی جان  کی فکر نہ کرنا کہ ہم کیا کھائیں  گے یا پیئں  گے۔ اور نہ اپنے بدن کی  کہ کیا   پہنیں گے؟کیا جان خوراک  سے اور بدن کپڑوں سے بڑ ھ کرنہیں؟  ” ( متی 25:6 – 34)

شکر ہے، قناعت ایک ایسی چیز ہے جسے سیکھا اور پروان چڑھایا جا سکتا ہے اور یہ بیرونی حالات پر منحصر نہیں ہے۔ پولوس رسُول اپنی زندگی سے ایک کہانی کا ذکر کرتا ہے۔

”یہ نہیں کہ میں محتاجی کے لحاظ سے کہتا ہُوں کیونکہ میں نے یہ سیکھا ہے کہ جِس حالت میں ہُو   اُسی پر راضی رہُوں۔میَں پَست ہونا بھی جانتا ہُوں اور بڑھنا بھی جانتا ہُوں ۔ہر ایک بات اور سب حالتوں میں میَں نے سیر ہونا بھُوکا رہنا اور بڑھنا گھٹنا سیکھا ہے۔” (فلپیوں 4:11-13)

نتیجہ

آپ کو اقدار، کردار اور اخلاقیات کے بغیر دولت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رقم کو ذمہ داری سے حاصل کرنا اور یاد رکھنا کہ یہ خدا کی طرف سے آتا ہے بہت اہم ہے۔ دولت کو اپنے مقاصد اور دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنے اور اپنے آس پاس کی دنیا کے لیے قدر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اصل دولت یہ نہیں ہے کہ آپ کے پاس کتنا پیسہ/مال ہے۔ اس کے بجائے، یہ ان اقدار، خوشی، اور فلاح و بہبود کے بارے میں ہے جو آپ اپنے اور اپنے آس پاس کی دنیا کے لیے بنا سکتے ہیں۔ خود حقیقت سازی کے ذریعے کمائی گئی دولت – لطف اندوزی، تکمیل اور مقصد – ہماری دنیا کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنا سکتی ہے۔

بالآخر، بائبل سکھاتی ہے کہ دولت کو دوسروں کی بھلائی اور خدا کی بادشاہی کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہ سخاوت اور غُربت کی لکیر پررہنے والوں کی دیکھ بھال کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ہمیں دولت اور کام کے بارے میں اپنے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ روحانی روابط تلاش کریں۔

Samuel Thambusamy is a PhD candidate with the Oxford Center for Religion and Public Life.