تصویر بجانب پراتیک کٹیال، ان سپلیش پر

خُداوند یسوع کی زندگی، موت اور جی اُٹھنا، خُدا کی محبت کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ زندگی بدلنے والی یہ کہانی پچھلے 2000 سالوں سے (دوبارہ) سنائی جا رہی ہے۔ درحقیقت، یسوع کے پیروکار (ہر نسل میں) "کہانی رکھنے والے” رہے ہیں۔ انہوں نے انجیل کی کہانی کو اپنی دنیا میں دوبارہ بتا کر زندہ رکھا ہے۔

خُداوندِیسُوع کے پیروکاروں نے مخالفت، جبر اور ستم کے باوجود کہانی کو زندہ رکھا ہے۔ ہمارے پیش رو والدین نے کہانی سنی اور ان کی زندگی پھر کبھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ ہندوستان میں افراد اور برادریوں کی تبدیلی کی تاریخ ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ ہم بھی کہانی کے محافظ ہیں!

یہ ضروری ہے کہ ہم انجیل کی کہانی کو "ذمہ داری سے” دوبارہ سنائیں۔ کیسے، پھر ہم کہانی کو دوبارہ سنائیں گے۔ ہمیں اندھیرے میں ٹٹولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے، بائبل میں 21ویں صدی کے "کہانی کے محافظوں” کے لیے کافی مثالیں موجود ہیں۔ آئیے پہلی صدی کے ایک "کہانی کے رکھوالے” کو سنیں اور کچھ سبق سیکھیں۔

چُونکہ بُہتوں نے  اِس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہُویئں  اُن کو ترتیب وار بیان کریں۔ جیسا کہ اُنہوں نے جو شروع سے خُود دیکھنے والے اور کلام کے خادِم تھےاُن کو ہم تک پُہنچایا۔اِس لئے اَے مُعززتھِیفُلُس مَیں نے بھی مُناسِب جانا کہ سب باتوں کا سِلسِلہ   شُروع  سےٹھِیک ٹھِیک دریافت کرکے اُن کو تیرے لئے ترتِیب سے لِکھوں تاکہ جِن باتوں کی تُونے تعلیم پائی ہے اُن کی پُختگی تُجھے معلُوم ہو جائے۔   (لوقا 1:1-4)

اپنے  آرام کے علاقے سے باہر نکلیں۔

لُوقا پیشے کے لحاظ سے ایک طبیب تھا اور پِھر بھی فلسفہ، الہیات، مذہب اور ادب میں قدم رکھنے کے لیےآمادہ تھا۔ عصرِ حاضر کے مسیحی کہانی سُنانے والوں/مُحافظوں کے پاس لُوقا سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔

عصرِ حاضر کے سامعین تک خوشخبری کی کہانی کو پہنچانے کے لیے ہمیں اپنے آرام کے علاقوں سے باہر نکلنے اور مختلف تعلیمی شعبوں میں جانے کے لیے آمادہ ہونے کی ضرورت ہے۔

کہانی کی تحقیق کریں۔

لُوقا نے جو اُس کے حوالے کیا گیا ہے اُس کا بغور مطالعہ کیا ۔ اُس نے اِنجیل کی کہانی کے مختلف اجزا کا بغور مطالعہ کیا۔ بائبل ادبی تحقیق اور تاریخی تحقیقات کو جائز قرار دیتی ہے۔

ہمیں اِنجیل کی کہانی کے مختلف اِجزا ءکو جاننے کی ضرورت ہے۔ پوسٹ ڈا ونچی کوڈ (DVC) یہ ضروری ہے کہ ہم جانیںکہ ہم کیا یقین کرتے ہیں اور ہم جو یقین رکھتےہیںوہ کیوںیقین رکھتے ہیں۔ تب ہی ہماری کہانی میں صداقت، اختیار اور قبولیت ہوگی۔

کہانی کو تدبر کے ساتھ پیش کریں۔

لُوقا نے مختلف تاریخی حقائق اور عینی شاہدین کے بیانات کو ترتیب دیا اور انہیں ترتیب سے لکھا۔ بائبل کے علماء اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ لُوقا نے اِنجیل کی کہانی ایک ناول کے طور پر لکھی تھی۔

مزید یہ کہ یہ اپنے دور کے ناول نگاری ادب کا مقابلہ بھی کر سکتا تھا۔ جدید زبان میں، اِسے کسی بھی اخبار کی دوکان پر اور کتابوں کی دکانوں میں فروخت کیا جا سکتا ہے۔

لُوقا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ ہمیں انجیل کی کہانی کے ساتھ وسیع تر ثقافت تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خُوشخبری کی کہانی کی "پُرکشش” اور "ذہین” پیشکش کرنے کی ضرورت ہے۔

فضیلت کے لیے پُرعزم رہیں۔

بائبل کے اسکالرز لُوقا کی زبان اور الفاظ کی فراوانی کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کا ‘جیزز ناول’ کوئی بے ترتیب کام نہیں تھا۔

اِس کے برعکس، یہ معیاری کام تھا جو ایک اعلیٰ ادبی سامعین کے پڑھنے کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ ہمیں لُوقا کی "فضیلت کے عزم” سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اپنا  شخصی تجربہ  شامل کریں۔

بائبل کی مالی معاونت اُن طبی اِصطلاحات اور الفاظ کے استعمال کی طرف اشارہ کرتی ہے جِن سے اُس دور کے معالجین واقف تھے۔

مسیحی کلیسیاء کے پاس صلاحیتوں کا بھرپور ذخیرہ ہے۔ ہمارے تمام مشترکہ علم اور مہارتوں کا مجموعہ مزید بہتری پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں کو عصری مسیحی کہانی سنانے والوں/محافظوں میں شامل کر سکتے ہیں، تو ہماری کہانی سنانے کا عمل بہت اہم ہوگا۔

مقصد کی راہنُمائی میں چلنے والے بنیں۔

وہ بغیر کسی مقصد کے اِنجیل کی کہانی کو دوبارہ نہیں سُنا رہا تھا۔  یہ اِس بات کو یقینی بنانے کے لیے تھا کہ اِس کے سامعین  سچائی سے واقف ہو جائیں۔  کہ وہ جان لیں کہ وہ کس چیز پر یقین رکھتے تھے۔

لُوقا چاہتا تھا کہ اُس کے سامعین کو جانیں کہ ان کے عقائد "کیا” ہیں اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ "کیوں” انہیں ان عقائد کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ پوری مشق اس لیے کی گئی تھی کہ اس کے سامعین خوشخبری کی کہانی کی سچائی، خوبصورتی اور بھلائی کی تعریف کرنا سیکھیں۔

اِختتامیہ:

کہا جاتا ہے کہ جو عہد کوگرفت میں لے لیتا ہے، وہ کہانی کوگرفت میں لے لیتا ہے ہے۔ اس کے برعکس، جو کہانی کوگرفت میں لے لیتا ہے ، وہ عہد گرفت میں لے لیتا ہے ۔ ہمارےدور کے کہانی سُنانےوالےکون ہیں؟

ہمیں کہانی سنانے والے/ مُحافظ ہونے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ ہمیں اِنجیل کی کہانی کو اس انداز میں سنانے کی ضرورت ہے جو ہم عصر سامعین کے تصورات دبوچ لے ۔ سننے والے سامعین کو حکم دینے کے لیے صرف خوشخبری کو "پرکشش طریقے سے” بتانا کافی نہیں ہے۔

یہ ضروری ہے کہ ہم خوشخبری کی کہانی کو "ذمہ داری سے” بتائیں۔ سچ ہے، آ ج کے معلوماتی دور میں انجیل کی کہانی سنانا آسان نہیں ہے۔ لیکن پھر، کہانی کے رکھوالوں کی ہر نسل نے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے یہ کام کیا ہے۔ ہم یسوع کی کہانی کے مُطابق زندہ بسرکر سکتے ہیں اور اِس کہانی کو (اور ہمیںضرور چاہیے) اوروں کو سُنا نےکے زریعے ہم کہانی کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

Samuel Thambusamy is a PhD candidate with the Oxford Center for Religion and Public Life.