انسپلیش سے لی گئ ستریا  ہوتامہ کی تصویر۔

یعقوب 4:1۔6 ’’تُم مانگتے ہو اور پاتے نہیں اِس لِئے کہ بُری نِیّت سے مانگتے ہو تاکہ اپنی عَیش و عِشرت میں خرچ کرو۔ 4اَے زِنا کرنے والیو! کیا تُمہیں نہیں معلُوم کہ دُنیا سے دوستی رکھنا خُدا سے دُشمنی کرنا ہے؟ پس جو کوئی دُنیا کا دوست بننا چاہتا ہے وہ اپنے آپ کو خُدا کا دُشمن بناتا ہے۔‘‘(آیات 3۔4)

ہم ایک انسانی مخمصہ (الجھن) کی زد میں ہیں۔یعنی ہم ایک طرف تو کہتے ہیں کہ خدا ہماری دعاوں کا جواب دیتا ہے جس کا ذکر کلامِ پاک میں بھی ملتا ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماری کچھ دعائیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی میں خدا کے مقصد کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور اگر ہم یہ کہیں کہ ہم اس بات کو کیسے جان سکتے ہیں تو یہ محض ایک جھوٹی دلیل ہو گی جس کو ماننا ایک عاقل شخص کے لئے مشکل ہو گاکیونکہ خدا ایسی ذات نہ ہے جو خود کو چھپائے وہ تو پورے عہد نامہ عتیق میں واضح طور پر دیکھائی دیتا ہے جس کے متعلق ہم ہر روز تجربات سے سیکھتے ہیں جس طرح سے اسرائیلی ہر روز خدا کے کردار کے مختلف پہلووں سے واقفیت حاصل کرتے تھے ۔ یہ نہایت خطرناک بات ہے کہ ہم ہر بات کے لئے خدا کو ذمہ دار ٹھہرا تے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم یہ فرض کئے ہوئے ہیں کہ ہم جو بھی کرتے ہیں وہ جانتا ہے جس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ وہ پاک ذات ہے جو دلوں کے بھید خوب جاننے والا ہے مگر ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا خدا ہماری پریشانیوں کو دور کرنے کے باوجود ان سب کےتابع نہیں ہے بلکہ وہ یہ سب تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے ہم سے بے پناہ محبت ہے ۔اور اس کے شواہد ہمیں مقدس لوقا کی تحریر میں یوں ملتے ہیں کہ ہمارے منجی یسوع المسیح نے بخوشی قربان ہونا قبول کیا ۔ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ایمان کو برقرار رکھنے ،بڑھانے اور خدا کی بادشاہی کو ظاہر کرنے کے لئے یسوع مسیح کی پیروی کریں ۔

ہم اپنی دعائیہ زندگی میں ہمیشہ غلط مقاصد کے پیشِ نظر مانگتے ہیں یعنی ہماری دعا شکرگزاری سے بھرے ہونے کی بجائے دنیوی مقاصد سے لبریز ہوتی ہے کیونکہ ہمیں کسی نہ کسی بات کے لئے فکر لاحق ہوتی ہے اور کہیں نہ کہیں ہم نقصانات کی فکر کی زد میں بھی ہوتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم قدرتی طور پر درداور نقصان سے بچنا چاہتے ہیں اور اس کے شواہد ہمیں اس طرح ملتے ہیں کہ ہماری دعا ان عالمی سانحات پر مرکوز ہوتی ہے جو روزانہ سامنے آتے ہیں ۔ یہاں یہ سوچنا بے حد ضروری ہے کہ ان سب کے بارے ہمارا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اسی توسط سے میں یہا ں یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ جب بھی ہم کسی مشکل یا پریشانی میں ہوں اس صورتِ حال میں اس کی بجائے کہ ہم سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جائیں ہمیں گھٹنوں کے بل ہونے اور دعا میں جھکنےکی ضرورت ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں اپنی بات سمجھانے میں کس قدر کامیاب رہا یا نہیں رہا تو بھی بات کو نتیجہ تک لے جانے سے پہلے یہ بتانا چاہوں گا کہ ہماری دعا جب بھی خواہشات اور ضروریا ت پر مرکوز ہو گی تو ہمیشہ ہماری دعا کے مقاصد درست سمت سے ہٹ جائیں گے اور ہم حل تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ ہمیشہ ہماری زندگی کا یہ مقصد ہونا چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالیں ۔

غور طلب حوالہ جات :امثال 1:28۔33؛ یسعیاہ  1:10۔17؛ متی 21:18۔22؛  افسیوں  4:11۔16

عملی کام:آپ نے خدا کے کردار کے بارے میں کیا سیکھا ہے اور یہ آپ کے فیصلہ سازی کو کیسے متاثر کرتا ہے؟

  دُعا :اے میرے بادشاہ میں ہمیشہ تیرے ساتھ منسلق رہ کر زندگی گزارنا چاہتا ہوں ۔ آمین۔‘‘

 

Micha Jazz is Director of Resources at Waverley Abbey, UK.