feb2b62

اگرسمسون اپنی پہیلیوں سے اپنے دشمنوں کو غصہ نہ دلاتا تو وہ اُنہیں شکست دے سکتا تھا۔ دراصل وہ ہر فلستی کا بدترین دشمن تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں تھا! کیونکہ اب وہ سورمانہیں ہے بلکہ وہ پہلے کبھی سورما تھا۔ اب وہ محض اپنے ماضی کےدھندلے سے سائے کی مانند تھا۔

قید میں جبری مشقت اور چکی کے پاٹ سے پیسنےکی وجہ سے چند ماہ میں وہ خود کو کمزور،ناتواں اور لاچارمحسوس کررہا تھا(قضاۃ۲۱:۱۶)۔ یہ دیکھ کر آپ افسوس کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے کہ وہ ایک سورما کو بے رحمی کے ساتھ گھسیٹ کر کھلی جگہ پر لائے ۔جہاں بڑی تعداد میں فلستی جمع تھے جو دجون دیوتا کے سامنے اپنی فتح کا جشن منانے کے لئے آئے تھے (قضاۃ۲۳:۱۶)۔وہ اُس پر ہنس رہے اور ٹھٹھا اڑا رہے تھے ۔

اب وہ سورما کی بجائے ایک کھلونا بن کر رہ گیا تھا۔ اس کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ اس کو وہاں پر محض بھیڑ کی تفریح کے لئے لایا گیا تھا۔ اُن کی دل دکھانے والی باتیں سن کر اسے بڑی تکلیف ہوتی ہو گی۔ اس سے بھی بدتر ین بات یہ ہے کہ اب سورما محض ایک مذاق بن کررہ گیا تھا۔

ہمیں سمسون کی کہانی کو قضاۃ کی کتاب کے پس منظر میں سمجھنا چاہئے۔ جس میں ہمیں لوگوں اور راہنماؤں کے عروج و زوال کی داستان ملتی ہے۔

کتاب میں یہ قصہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح لوگ گناہوں کا شکار ہوئے جس نے ان کی ذاتی زندگیوں ، معاشرے اور عبادات کو متاثر کیا۔ اسرائیلی میں بار بار اس جملے کو دھرایا جاتا ہے، ’’ان دنوں اسرائیل میں کوئی بادشاہ نہیں تھااور ہرشخص جو کچھ اُس کی نظر میں اچھا معلوم ہوتا وہی کرتا تھا‘‘۔

سمسون کی کہانی خدا سے دور ہونے کی کہانی ہے۔ اصل المیہ تھا کہ ’’اسے خبر نہ تھی کہ خداوند اس سے الگ ہو گیا ہے‘‘(۲۰:۱۶) ۔ ہم سمسون کی زندگی سے قیمتی سبق سیکھ سکتے ہیں۔

اول ۔ سمسون کا چناؤ غلط تھا۔ اس کے چناؤ نے اسے خدا سے دور کردیا۔ سمسون کو ناصری بننا تھا۔ اسے ایک انوکھا طرز زندگی اختیار کرنا تھا۔ ایسی زندگی جس کو خدا کے لئے الگ کیا گیا ہو۔ اس کا چناؤ اس کی طرز زندگی سے ظاہر تھا۔ اس کواپنی زندگی کےمقاصد کے چیزوں کو چننا چاہئے تھا لیکن اس نے غلط چیزوں کو چنا ہے۔ اس نے اس کی ایسی چیزوں کو چنا جو اس کی زندگی سے میل نہیں کھاتی تھیں۔ اس کے بالوں کو کاٹنا دراصل نذیر کی منت کو قریب قریب ترک کرنا ہی تھا(۱۹:۱۶)۔ جب بھی ہم غلط چیزوں کا چناؤکرتے ہیں تو ہم خدا سے دور ہوتےجاتے ہیں۔

Samuel Thambusamy is a PhD candidate with the Oxford Center for Religion and Public Life.