یسوع نے اس سے کہا ’’قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائےتو بھی زندہ رہے گا۔ اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تو (مارتھا)اس پر ایمان رکھتی ہے؟‘‘

اس پیغام میں ، میں مسیح یسوع کی موت اور مردوں میں سے جی اٹھنے کے دعوؤں پر بات کروں گا۔ یسوع نے مارتھا کو بتایا کہ وہ قیامت اور زندگی ہے۔

بے شک انسانیت کا سب سے بڑا دشمن موت ہے۔ یہ عام لوگوں اور ایمانداوں کے دلوں میں ایک ہی جیسا خوف پیدا کرتی ہے۔ گو کہ ہم اس کی حقیقت کو جانتے اور مانتے ہیں ، اس کے باوجود ہم تیاری نہیں کرتے یا کبھی بھی موت کاسامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ خدا کا کلام بتاتا ہے کہ انسان کے لئے ایک بار مرنا ضرور ہے۔ ایک مشہور برطانوی شاعر کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ عظمت کی راہیں بھی ہمیں قبر میں لے جاتی ہیں ۔

پیدائش۱۷:۲ کے مطابق ، موت خدا کے واضح حکم کی انسان کی طرف سے کی جانے والی نافرمانی یعنی گناہ کا نتیجہ ہے۔ خداوند خدا نے آدم کو باغ عدن میں رکھا تاکہ وہ باغبانی اور نگہبانی کرے۔ لیکن خداوند خدا نے اسے حکم دیا کہ ’’تم باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے سوائے نیک اور بدکی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھاناکیونکہ جس روز تونے اس میں سے کھایا تو مرا‘‘۔

کتاب مقدس کے مطابق موت کے دو معنی ہیں ، ایک جسمانی موت جس کا سامنا ا س زندگی میں ساری انسانیت کو کرنا ہی ہے۔ پیدائش۱۹:۳ میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ’’تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تو پھر لوٹ نہ جائے اس لئے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا‘‘۔لیکن یہ فوراًنہیں ہوتا۔

آدم کے معاملے میں یہ تب ہو جب وہ تقریبًا ۹۳۰سال کا ہو کر مر ا۔ایسا لگتا ہے جیسے کہ یہاں پر واضح تضاد موجود ہے کہ خداوند کے حکم کے مطابق موت گناہ کرنے پر فوراً واقعہ نہیں ہوئی تھی ۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں موت کے دوسرے معنی پر غور کرنا چاہئے۔ اس کا دوسرا معنی روحانی موت ہے ، جہاں انسان کی روح فوراً دم توڑ دیتی ہے۔ اس کا خدا کے بارے میں علم ختم ہو گیا اور اس پر اس کا ننگاپن ظاہر ہوا۔

اس کے نتیجے میں انہوں نے خود کو خدا وند کے حضور سے چھپا یا اور انجیر کے پتوں کو اپنے ننگے پن کو ڈھانپنے کے لئے پہن لیا۔ پولس رسول انسان کی حالت زار اور اس کی بحالی کے لئے خدا کے انتظام کی وضاحت کرتا ہے۔ افسیوں۱:۲میں فضل اور امید کی حالت کو ہم پر ظاہر کرتا ہےکہ ’’اور اس نے تمہیں بھی زندہ کیا جب اپنے قصوروں اور گناہوں کے سبب سے مردہ تھے‘‘۔

جب ہم قیامت کے ذریعہ موت پر مسیح یسوع کی فتح کے دعوے کی گہرائی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس نے نہ صرف دعویٰ کیا بلکہ دعوے کو پورا کرنے کے لئے اپنی مافوق الفطرت قدرت کا مظاہرہ بھی کیا۔ لعزر کے معاملے میں اس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب یسوع مسیح نے اسے مردوں میں سے زندہ کیا۔

مردوں کی قیامت کتاب مقدس کی مشہور تعلیم ہے۔ پوری انسانیت کو مردوں میں سے زندہ ہوناپڑے گا۔ مسیح یسوع کے ماننے والے خدا کی حضوری میں ابدی زندگی کے لئے زندہ ہوں گے جبکہ دوسرے لوگ ہمیشہ کی سز ا کے لئے جی اٹھیں گے۔

اس کے مطابق مسیح یسوع کو ماننے والے موت سے ابدی زندگی میں داخل ہوں گے۔ ایمانداروں کے ابدی زندگی کے لئے جی اٹھنے کی بنیاد دراصل اس حقیقت پر ہے کہ مسیح یسوع مردوں میں سے زندہ ہوئے۔

یسوع نے مارتھا سے کہاکہ ’’ قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائےتو بھی زندہ رہے گا اور جو کوئی زندہ ہے اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔ کیا تو (مارتھا)اس پر ایمان رکھتی ہے؟ ‘‘اس بات کا گہرائی سے جائزہ لینے سے درج ذیل نکات ہمارے سامنے آتے ہیں:

وہ قیامت اور زندگی ہے

جو بھی اس پر ایمان لاتا ہے وہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا

جو بھی مسیح یسوع پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارتا ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔

یہ یسوع مسیح کے واضح دعوے ہیں۔ اس نے بڑی احتیاط اور حکمت عملی کے ساتھ روحانی اور جسمانی طور پر اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے۔ لعزر اور اس کی دونوں بہنیں مسیح یسوع کے دعوؤں کو ثابت کرنے کے لئے خدا کی قدرت کے اظہارکے واقعے کے مرکزی کردار تھے۔مسیح یسوع پر ایمان رکھنے والے کے پاس امید ہے کہ وہ ہمیشہ کی زندگی کےلئے مردوں میں سے زندہ ہوگا۔

پال مرسلین گیانا سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی بورڈ آف برنباس فنڈ کا رکن ہے۔

Paul Mursalin is a member of the International Board of Barnabas Aid from Guyana.