e87b0fe

پادری کرسٹین نیکیونے۔بسولوا(یوگنڈا)اپنے پیغام میں اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بنی اسرائیل موعودہ ملک کی طرف اپنے سفر کے دوران بار بار خدا سے شکایتیں کرتے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ’’معاشی پریشانیاں ،صحت کی خرابی ، ناخوشگوار تعلقات ، اضطراب اور پریشانیاں آپ کو ایک انچ بھی ہلنے نہیں دیتیں۔ آپ اپنے مسائل کو خداوند کے سامنے پیش کریں‘‘۔ وہ ہمیں نصیحت کرتی ہے کہ ہم خود کو خداوند کی بھلائی کے سپرد کردیں اور اس پر بھروسہ کریں کہ کوئی راہ نکالےگا ۔

خروج۲:۱۶۔۱۵،زبور ۱:۱۰۵۔۶، ۳۷۔۴۵، فلپیوں۲۱:۱۔ ۳۰، متی ۱:۲۰۔۱۶

آج کے لئے ہمارا مضمون ہے ،’’پریشان نہ ہوں‘‘۔ ہمارا پورا مضمون ہو گا ، بےکار چیزوں کے لئے پریشان نہ ہوں۔ہم نے خروج کے اسباق میں جو کچھ پڑھا ، اسرائیلیوں نے موسیٰ اور ہارون کے بارے میں شکایت کی کہ کھانے کے لئے گوشت نہیں مل رہا تھا۔ وہ سارا دن بڑبڑاتے رہتےاور کبھی کبھی تو رونے کی آوازیں نکالنے لگتے۔وہ ہمیشہ مصر کو چھوڑنے کے فیصلہ پر غصے کا اظہار کرتے ۔ وہ اس خواہش کا اظہار کرتے کہ کاش خداوند انہیں مصر میں ہی مار ڈالتا۔ بنی اسرائیل خود سے جھوٹ بولتے اور کہتے کاش کہ ہم ملک مصر میں ہی رہتے جہاں ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھایا کرتے تھے۔تب انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اُن کو بیابان میں اسی لئے لے آئے ہیں کہ سارے مجمع کو بھوکا ماردیں۔

یقینا ً، اس بات نےموسیٰ اور ہارون کا دل چیر کر رکھ دیا ہوگا۔ ان کے سامنے بنی اسرائیل کے بیس لاکھ لوگ اسی طرح کی باتیں بول رہے تھے اور موسیٰ اور ہارون کو ہر کونے سے ایسی ہی آوازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ اُن کو بہت برا لگ رہا ہوگا اور وہ پریشان ہوں گے کہ اب ہم کیا کریں؟

اس وقت تک بنی اسرائیل بھی خدا میں بالغ نہیں ہوئے تھے۔ وہ خدا کو شخصی طور پر نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے لوک داستانوں میں اس کے بارے میں ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کے خدا کے طور پر سُن رکھا تھا لیکن انہیں اس کا شخصی تجربہ نہیں تھا۔ وہ ابھی ابھی چار سو سال کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے ، جہاں انہیں وزن اٹھانے والے جانور سمجھا جاتا تھا۔

وہ بہت زیادہ کام کرتے تھے لیکن تھوڑے سے کھانے اور تھوڑا سا وقت آرام کرنے پر گزر بسر کرتے تھا، مصری فوج ان پر ظلم و جبر کرتی تھی اور ان کے ساتھ ناجائز سلوک روا رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ مصر میں رہتے رہے۔ اس احتجاج اور شور و غل کے ماحول میں جب کہ صرف وہی لوگ زندہ بچتے ہیں جو خود کو تبدیل کرتے ہیں۔سب اپنے اپنے باے میں سوچتے تھے اور اسی طرح ان کی زندگی کا گزر بسر ہو رہا تھا۔ان کے لئے یہی زندگی تھی۔ انہوں نے اپنی پرانی سوچ کے ساتھ ایسی ہی زندگی گزارتے ہوئے خداوند کی پیروی کرنے کی کوشش کی بغیر سوچے کہ زندگی کیسی ہوگی۔اس لئے اپنی نابالغ حالت میں انہوں نے مصر کی ہی تدبیریں، شکایات، تلخ کلامی اور مفلسی کوہی اپنائے رکھا۔

موسی اور ہارون بالغ ہونے کے ایک طویل سفر پر گامزن تھےوہ اپنے ان لوگوں سے بہت آگے تھے جن کی انہیں رہنمائی کرنی تھی۔ بے شک ، انہوں نے شکایت کرنے والے لوگوں کے درد کو ضرور محسوس کیا ہوگا ، لیکن خداوند نے خود موسیٰ اور ہارون کو باہر نکالا تھا۔ اس لئے ان دونوں نے ایک دعائیہ میٹنگ (میرے الفاظ) کا اہتمام کیا ، جس میں وہ پورے مجمع کے ساتھ خدا کے سامنے حاضر ہوئے۔ ویسے (میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ دوسری شکایت کھانے یا گوشت کے بارے میں تھی)۔

پہلی شکایت خروج کے باب ۱۵ کے آخر میں ملتی ہے جو پانی نہ ملنے کے بارے میں تھی۔ خداوند کے حضور دعائیہ میٹنگ کے دوران خدا بٹیر نامی پرندوں کو ساتھ لایا ، جو خیموں کے اوپر نچلی پرواز کر رہے تھےاور صبح جب زمین پر اوس پڑتی تھی تو پوری جگہ ایک ایسی چیز سے بھرجاتی تھی جو وہ لوگ نہیں جانتے تھے کہ کیا ہے۔

اس لئے لوگوں نے خود سے پوچھا یہ کیا ہے؟ یہ من و سلویٰ ہے۔ چنانچہ خدا نے انہیں کھانے کے ساتھ ساتھ پرندے اور بٹیربھی دئیے۔ لیکن جب ہم خروج کی کتاب میں مزید آگے بڑھتے ہیں تو کچھ ہی دن کے بعد انہوں نے دوبارہ شکایت کی ۔تیسری شکایت، جب بھی ان کو غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا توان کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ شکایت کرنے لگتے تھے۔

انجیل میں ، خداوند ایک ایسے امیر آدمی کی تمثیل سناتے ہیں جو انگور کے باغ کا مالک تھا۔ امیر آدمی نے مختلف اوقات میں مزدوروں کو اپنے باغ میں بھیجا ۔ اس وقت کام کا آغاز صبح۶ بجے ہوا کرتا تھااس لئے وہ مزدوروں کی جگہ پر گئے اور وہاں کچھ مزدوروں کو لیا اور اپنے باغ میں مزدوری کے لئے ان مزدوروں کی خدمات حاصل کیں۔ اس کے بعد پھر صبح۹ بجے وہ بازار سے گزر رہا تھا اور دیکھا کہ کچھ آدمی وہاں گھوم رہے ہیں۔ اس نے ان کو کہا کہ جاکر تاکستان میں کام کرو اور وہ انہیں مزدوری دے گا۔

یہی کچھ اس نے دوپہر کے وقت اور سہ پہر تین بجے بھی کیا ۔ اس نے تاکستان میں آدمی بھیجے اور انہیں کچھ مزدوری دینے کا وعدہ کیا اور شام ۵ بجے بھی اس نے یہی کام کیا۔ اس نے کچھ مردوں کو اِدھر اُدھر پھرتے ہوئے پایا اور ان کی خدمات حاصل کیں اور ان سے بھی کچھ دینے کا وعدہ کیا۔ عام طور پر کام شام ۶ بجے ختم کیا جاتا تھا۔ یہ تقریباًبارہ گھنٹے کا دورانیہ بنتا تھا۔ چنانچہ پہلے آنے والے مزدوروں نے ۱۲گھنٹے کام کیا ، ان بعد آنے والوں نے ۹گھنٹے ، اگلے مزدوروں نے۶ گھنٹے ، آگے والوں نے ۳ گھنٹے کام کیا ، اور آخرمیں صرف آنے والے مزدوروں نے صرف ایک گھنٹہ کام کیا۔

اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ پہلے کام پر رکھے جانے والے مزدوروں کے ساتھ تنخواہ طے کی گئی اور ممکن ہے کہ سودے بازی بھی ہوئی ہوگی کہ میں اتنامعاوضہ دوں گا اورکسی نے کہا ہوگا نہیں یہ کم ہے ۔ لیکن باقی سب جو۹ بجے ،۱۲ بجے، ۳ بجےاور۶ بجے گئے ہونگےاُن کا معاوضہ طے نہیں ہوا ہوگا۔ انہوں نے اپنے آپ کو پورے طورپر اس کی مہربانی ، خیر سگالی اور بالغ پن پر چھوڑدیاتھا۔ جب تنخواہ دینے کا وقت آیا تو خزانچی نے آخری لوگوں سے شروع کیا جو شام ۵ بجے آئے تھے اور انہیں ۱۲ گھنٹے کی پوری تنخواہ ادا کی ،جس طرح صبح کے ۶ بجے آنے والوں سے طے پایا تھا۔

اس نے وہی رقم ان لوگوں کو ادا کی جو صبح ۹ ،۱۲ بجےاور شام ۳ بجے آنے والوں کو ادا کی تھی۔ پھر وہ لوگ آئے جنہوں نے صبح ۶ بجے کام شروع کیا ، انہوں نے آپس میں بات کی ہوگی کہ اگر اس نے چند گھنٹوں کام کرنے والے لوگوں کو اتنا دیا ہے تو یقینا ًوہ ہمیں زیادہ پیسے دے گا کیونکہ ہم نے تاکستان میں زیادہ دیر تک کام کیاہے۔ لیکن وہ حیران ہو گئے کہ ان کی مزدوری کے لئے اس نے انہیں اتنی ہی رقم دی جتنی دوسروں کو دی تھی۔ اور پرانی انسانیت کے تحت ہونے کی وجہ سے وہ بازو چڑھا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور شکایت کی ۔ آپ ہمیں کس طرح اتنے پیسے دے رہے ہیں جتنے آپ نے دن میں چند گھنٹے کام کرنے والوں کو دئیے تھے۔ لیکن مالک کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں اپنی حیرانی کا اظہار کیا کہ وہ دوسروں کے ساتھ اس کی فراخ دلی کا اس پر الزام کیوں لگارہے ہیں۔ اس نے دعویٰ کیا کہ جنہوں نے سارا دن کام کیا تھا اس نے ان کو دھوکہ نہیں دیا ، اس نے انہیں طے شدہ مزدوری ادا کی تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ اُس نے نا انصافی نہیں کی ہے ۔

ہمارے لئے ایک پیغام

خدا کے پیارے لوگو !خروج ۱۶ باب میں بنی اسرائیل اسی پریشانی کی وجہ سے شکایت کرنے لگے اور متی ۲۰ باب کے سب سے پہلے آنے والے نوکروں کو بھی اسی پریشانی نے شکایت کرنے پر اکسایا۔ جب بھی ہم پریشانی کا سامنا کرتے ہیں تو موسیٰ ہی ہمیں راستہ دکھاتا ہے۔ آپ اپنے مسئلہ خدا کے سامنے پیش کریں اور اس پر چھوڑ دیں۔ خود کو خداوند کی بھلائی کے سپرد کردیں اور اس پر بھروسہ کریں کہ خداوند اپنی بھلائی میں آپ کے لئے راستہ نکالے گا۔ فلپی کے حوالہ میں پولس ہمارے سامنے خداوند یسوع مسیح میں مطمئن شخص کی تصویر پیش کرتا ہے۔

آئیں ہم خود کو تربیت دیں کہ زندگی جیسی ہے ویسی قبول کریں، نہ کہ جیسی ہم چاہتے ہیں۔ لوگوں کو ویسے ہی قبول کریں جیسے وہ ہیں،جن کو مسیح خداوند نے اپنی جان دے کر چھڑا یا ہے۔ ان کے نیک اور پاک ہونے کا انتظار نہ کریں اور ان کے ساتھ بھلائی کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جب میں لوگ کہتا ہوں تو اس سے میری مراد میاں بیوی ، بچے ، دوست ، پڑوسی ، ملازم اور تمام یہاں تک کہ سب انسان ۔ یہ نہ سوچیں کہ وہ کون ہیں بس اپنی طرف سے بہترین انداز میں لوگوں سے بھلائی سے پیش آئیں ۔

معاشی، جسمانی اور سماجی بدحالی میں پریشان ہونا یا غصے کرنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ خداوند کے سامنے اپنے مسائل کو پیش کریں اور اس پر بھروسہ رکھیں۔

پریشانی کو موقعہ نہ دیں کہ لوگ آپ کے شکایت کرنے والے رویہ کی وجہ سے جانیں کہ آپ پریشانیوں اور زندگی کے مشکل حالات کا سامنا اس طرح سے کرتے ہیں۔ پیارے دوست میں آپ کو یسو ع مسیح کے نام میں کہہ رہا ہوں کہ انسانوں کے دوست بنیں ، اچھے اور برے ، بد اور بدترین حالات میں بھی

پریشان نہ ہوں۔


از پادری کرسٹین نیکیونے۔بسولواکے ایک کلیسیا کے پادری ہیں ، ایونجیلیکل ڈیوائسس کے متھیانا ، یونگڈا کے ہیں