شراکت  ڈیوڈ  پیڈفیلڈ

پیسے (مال) کے بارے یسوع مسیح کی تعلیم کافی بنیاد پرست اور مبازرت طلبی پر مبنی ہے۔ تاہم بجائے اس کے کہ آسان (یا فوری) نتائج پر پہنچیں ہمیں اس کی تعلیمات کو فوری سماجی تناظر میں دیکھنے اور جانچنے کی ضرورت ہے ۔

پیسے پر یسوع مسیح کی تعلیم کا تذکرہ چاروں اناجیل میں درج ہے۔ میر ے نزدیک ان کی انفرادیت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان مختلف عناصر کو مکمل طور پر یکجا کرنے کی کوشش بہترین طور پر گمراہ کن ہے۔

میں تھوڑا سا مختلف طریقہ اختیار کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک اچھا نقطہ آغاز یہ پوچھنا ہےکہ: یسوع مسیح (اور اس کے شاگردوں) نے پیسہ کیسے استعمال کیا؟ یسوع کی مستقل زندگی قیمتی بصیرت پیش کر سکتی ہے ؟

ان دو حصوں پر مشتمل مضمون کے پیشِ نظر میں چند عبارتوں پر توجہ مرکوز کروں گا اور یسوع مسیح کے پیسے کے استعمال کو اس کی تعلیم کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کروں گا۔ امید ہے کہ اس سے دولت کی تخلیق، ملکیت، ذمہ داری، عبادت اور خیرات کے بارے میں ہماری سمجھ میں اضافہ ہوگا۔

خاندان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کمائی

یسوع مسیح  ناصرت میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا  جہاں   یوسف ایک  بڑھئی   تھا اور  امکان ہے کہ خداوند یسوع  نے  اس  کے ساتھ ایک  مددگار کے طور پر کام کرنے والی تجارتی مہارتیں حاصل کی  ہوں ۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یوسف کی بے وقت موت کے بعد یسوع مسیح نے اپنی ورکشاپ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے خاندان کی کفالت کی ہو۔ یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ یسوع کو ‘مریم کے بیٹے’ کے نام سے جانا جاتا تھا – (متی 13:55)

دیہی معیشتیں زیادہ تر پیسے کی ضرورت کے بغیر خود کو برقرار رکھنے والے مرکز ہیں۔ تا حال کئی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ‘گلیل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پروان چڑھنے والے دہاتی یسوع کی مقبول تصویر’ گمراہ کن ہے (بیٹس، 2001)۔

نئے آثارِ قدیمہ کے شواہد سیفورس شہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ناصرت کے آس پاس ایک نفیس شہری ثقافت موجود ہے۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یسوع کا خاندان بغیر پیسوں کے (یا پیسوں کی ضرورت کے ) ناصرت میں رہتا ہے۔

ممکن ہے کہ یسوع نے خاندان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناصرت اور سیفورس میں (ممکنہ طور پر اپنے بھائیوں کے ساتھ) کام کیا ہو۔

اس بات کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے کہ یسوع نے خاندان کی روزمرہ کی ضروریات کی ادائیگی کے لیے رقم کا استعمال کیا۔ تاہم کانا گلیل میں شادی کی تقریب کے دوران مریم کی یسوع سے مدد کی اپیل (یوحنا 2:3) خاندان میں ایک فراہم کنندہ کے طور پر یسوع کے کردار کی نشاندہی کرتی ہے۔

میمن کا رد کیا جانا  (بے خدا )

آزمائش کی  داستان  میں( متی 4:1۔11 ؛ لوقا 4:1۔12)  یسوع نے تمام "جلال اور اختیار” کے باوجود اِبلیس  کی پرستش کرنے سے انکار کر دیا (متی  4:9 اور لوقا 4:9)  سب سے زیادہ عبادت کی ترجیح فقط زندہ خدا  کے لیے مخصوص کر دی۔

حیرت کی بات نہیں  کہ یسوع مسیح  اس بنیادی اصول (صرف خدا کی عبادت) کو اپنی ثقافت کے مرکز میں پیسے کی نہ ختم ہونے والی جستجو پر لاگو کرتا ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو سکھایا:’’کوئی بھی دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا‘‘  لہذا  آپ خدا اور پیسے دونوں  کی ایک ساتھ   خدمت نہیں کر سکتے ہیں (متی 6:24)۔

آرامی مشتق "میمن” کا استعمال کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یسوع پیسے کو ایک بت کے طور پر ظاہر کرتا ہے جو فعال طور پر عقیدت/عبادت کی تلاش کرتا ہے (سی ایف 2014)۔ میمن پھر بے خدا ہونے کی نمائندگی کرتا ہے – "وسائل کا جمع اور انبار” (بروس ایف ایف 1983) "بے ایمانی سے حاصل کی گئی دولت اور اس کا بے ایمانی سے استعمال” (براؤن 1986)۔

سیدھے الفاظ میں میمن (ملحد ہوتے ہوئے) خدا کی بادشاہی کی حقیقی اقدار کے خلاف ہے۔ یسوع کے لیےمیمن ’’خدا کا حریف ‘‘ہے اور اس لیے آپ خدا اور ملحد کی عبادت نہیں کر سکتے۔

دل کی محبتیں انسان کی روحانی حالت کا حقیقی امتحان ہیں۔ یسوع جانتا تھا کہ کسی کا دل ہمیشہ وہیں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتا ہے (لوقا 12:34)۔

کثرت کی ذہنیت

یسوع کے زمانے میں گلیل نے معاشی عروج کا مشاہدہ کیا۔ یہ اتار چڑھاؤ لنک روڈز، کسٹم کی زیادہ آمدنی، اور ہیرودیس کے بڑے پیمانے پر تعمیراتی منصوبوں کے ذریعے بڑھتی ہوئی تجارت کی وجہ سے تھا۔

زمین، پیسے اور طاقت کے لئے ایک ناقابلِ تسخیر بھوک کے باوجود بھی یسوع نے قناعت کی زندگی گزاری۔ وہ نہ تو کھانے (متی 6:25)، نہ پینے (متی 6:25)، نہ لباس (متی 6:28) اور نہ رہائش (متی 8:20) کے بارے میں فکر مند تھا۔ وہ کل کے بارے میں فکر مند نہیں تھا ( متی 6:34) وہ تو اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے خدا کی طرف دیکھتا تھا (متی 6:11)

یسوع نے مادیت کی غربت کی طرف اشارہ کیا: آدمی کی زندگی مال کی کثرت پر منحصر نہیں ہے (لوقا 12:15)۔ اس لیے اس نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ ہر قسم کے لالچ سے بچیں۔

یسوع نے لوگوں کو "خدا کی بادشاہی اور اس کی راستبازی” کی تلاش میں مدعو کیا۔ اُس نے اُنہیں سکھایا کہ خُدا یہ ’ضروریاتِ زندگی‘ اپنے فضل کے ذریعے فراہم کرے گا (متی 6:33۔35)۔

عطیات وصول کرنا

اپنی عوامی وزارت کے دوران یسوع مسیح نے پورے گلیل میں بڑے پیمانے پر سفر کیایعنی عبادت گاہوں میں تعلیم دی اور بادشاہی کی انجیل کا اعلان کیا۔ یسوع کی خدمت گزاری کے سفر اور قیام پر بہت سے اخراجات ہوئے ہوں گے۔

شکر ہے، بہت سی (زیادہ تر اچھی طرح سے قابل احترام خواتین) نے ان کے لیے اپنے وسائل سے مہیا کیا (لوقا 8:3 )۔ مریم مگدلینی، یوانہ ، سو سناہ، سلومی اور بہت سے دوسرے مددگار تھے (لوقا 8:3؛مرقس 15:40)۔

یسوع کے بہت سے امیر دوست تھے۔

  لہٰذا اس  کی تعلیم یعنی  ’’اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزرنا کسی امیر کے لیے خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے سے آسان ہے‘‘کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یسوع نے نہ تو امیروں کو حقیر جانا اور نہ ہی ان کے مادی املاک کو۔ یسوع پیسے کی محبت کے ساتھ ہونے والی الجھنوں کے خلاف تھا۔ اس نے امیروں اور طاقتوروں کے خود غرضانہ رویوں اور اعمال کی مذمت کی۔

کیا امیر خدا کی طرف رجوع کر کے راستباز ہو سکتا ہے؟ پھر کون بچ سکتا ہے؟سوال پر یسوع کا جواب سبق آموز ہے۔اُس نے کہا، ’’انسان کے لیے یہ ناممکن ہے لیکن خُدا کے لیے سب کچھ ممکن ہے‘‘ (متی 19:26)

یسوع نے امیروں پر نہ صرف تنقید کی بلکہ ان کے ناقابل تسخیر لالچ کی مذمت بھی کی۔ یسوع نے دولت کے ساتھ روحانی خطرات کو بھی بے نقاب کیا اور غریبوں اور ضرورت مندوں میں دولت کی (دوبارہ) تقسیم کو فعال طور پر فروغ دیا۔ تاہم یسوع روزمرہ کی زندگی میں پیسے کی اہمیت کو جانتا تھا – (گھریلو معاملات، کاروبار، سفر اور قیام وغیرہ)۔ اس نے پیسے کو جائز مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی منظوری دی۔ مضمون کے دوسرے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ کس طرح یسوع نے پیسے کو عام بھلائی کی تلاش، ٹیکس ادا کرنے اور خیرات کے لیے استعمال کیا۔


یہ حصہ اول حصہ دوم کی سیریز ہے جس کا نام ہے کیا یسوع نے پیسے کا استعمال کیا۔

Samuel Thambusamy is a PhD candidate with the Oxford Center for Religion and Public Life.