پیدائش 3:1۔7 ’’بلکہ خُدا جانتا ہے کہ جِس دِن تُم اُسے کھاؤ گے تُمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تُم خُدا کی مانِند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‘‘(آیت 5)

تسلیم کرنا یا فرمانبرداری کرنا روحانی تشکیل کی بنیاد ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی وجہ سے ہم شخصی آزادی کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس سوشل میڈیہ کے توسط سے چلنے والے بے شمار پیغامات کے دور میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جیسے کے آدم اور حوا کو سانپ کا سامنا کرنا پڑا ۔

یہ اٹل حقیقت ہے یوں کہہ لیجئے ایک سنگین مسلہ ٔ ہے جس کا زندگی بھر ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آیا ہم فیصلہ جات کس بنیاد پر کریں ؟ مسیح کے لیے خدا کے کلام کی ہزاروں سچائیاں موجود ہیں لیکن مسلہ یہ ہے کہ یہ ذمہ داری پاسبانوں پر ہے کہ وہ معقول دلائل سے پیش کریں ۔

خوش قسمتی سے مسیحی پیغام نسبتاً آسا نی سے سمجھے جا سکتے ہیں فقط اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دوسروں سے مطالبات کرنے کی بجائے اپنے انتخاب کے ذمہ دار خود ہوں ۔ ہم میں سے ہر ایک ایسے فیصلہ جات کر سکتا ہے جو ہمارے لیے بہترین ہیں ۔مگر ان کے بارے وقت بتائے گا کہ آیا یہ خدا کی طرف سے ہیں یا محض وقتی طور پر ہیں ۔

ہمیں یہ فیصلہ جات خداوند پر ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہی تمام اختیارات کا مالق ہے (رومیوں 12:17۔21)۔ پھر بھی غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیں احتیاط سے فیصلہ جات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم میں سے ہر ایک کو خُدا کے سامنے اچھے یا برے اُن تمام فیصہ جات کا حساب دینا ہو گا جن کا دارومدار ہمارے اعمال پر ہے ۔ ( متی 7:1۔5) ہمارے نامناسب رویہ جات کے باوجود خدا ہمیں اپنی سچائی کے مطابق سنجیدگی سے اور پختگی میں بڑھنے کی توفیق دیتا ہے (عبرانیوں6:1)۔

غور طلب حوالہ جات:امثال 1:1۔7؛یرمیاہ 12:1۔6؛لوقا 8:1۔15؛عبرانیوں 6:1۔12

عملی کام: کیا آپ دوسروں کے بارے میں فیصلہ کن ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ آپ خبروں کی سرخیوں سے لے کر سوشل میڈیا پوسٹس تک ہر چیز کے پیچھےمحرکات  کو کیسے سمجھتے ہیں؟

  دُعا: ‘خداوندتیرا شکر ہے کہ فیصلہ تیری ذمہ داری ہے۔ ہر روز دانشمندانہ فیصلے کرنے میں میری مدد  فرما  ۔ آمین۔‘‘


فلکر سے لی گئ فانگز کی تصویر۔

Micha Jazz is Director of Resources at Waverley Abbey, UK.