زبور 121:1۔4 ’’میری کُمک خُداوند سے ہے جِس نے آسمان اور زمِین کو بنایا۔ وہ تیرے پاؤں کو پِھسلنے نہ دے گا۔ تیرا محافظ انگھنے کا نہیں ۔‘‘(آیت 2۔3)

ہنری نووین لکھتے ہیں کہ روحانی زندگی ہمارے روزمرہ کے وجود سے پہلے، بعد میں یا اس سے آگے کی زندگی نہیں ہے۔ نہیں !روحانی زندگی صرف اسی صورت میں حقیقی ہو سکتی ہے جب وہ دکھوں اور خوشیوں کے درمیان بسر کی جائے۔ لیکن کب شروع کی جائے ؟تخمیناً قابلِ بھروسہ خدا کے تصور کو قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہےلیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

ہمارے خدا کی طرف سے بھروسہ مند بات یہ ہے کہ خدا ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہے پھر چاہے ہم اسے تسلیم کریں یا نہ کریں ۔ہم زندگی کے تجربات ، روزمرہ کے حالات وواقعات اور پریشانیوں سے اکثر مغلوب ہو جاتے ہیں اور ہم کسی مافوق الفطرت مدد کی خواہش اور ضرورت محسوس کرتے ہیں۔

زبور نویس ہمیں زندگی کے دباؤ کے نیچے دب جانے کے بعد اوپر دیکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔ وہ حوصلہ بندھاتا ہے کہ مدد دستیاب ہے جو کبھی بھی پیشکش کے طور پر پہنچ سکتی ہے۔ مجھے فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا میں اس مدد کو قبول کروں گا۔ عام طور پر ہم فوراً قبول کر لیتے ہیں تو بھی کبھی ہچکچاتے بھی ہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کہیں نہ کہیں خائف ہیں کہ شاید ایسا ہو گا بھی کے نہیں ۔یعنی شک کی حالت میں رہتے ہیں ۔ یاد رکھیئے خدا کی نجات کی پیشکش کبھی نافذ نہیں ہوتی بلکہ آزادانہ طور پر دی جاتی ہے۔ ۔ ہم اس پیشکش کو قبول یا مسترد کرنے کے موقع سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیا ہم اپنی زندگی کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہمیں افراتفری سے نجات حاصل ہو اور ہم خدا کی ہدایت پر شک کرنے کی کیفیت سے نکل سکیں ۔ روحانی تشکیل کا سفر اس مقام پر ہم میں سے ہر ایک کے لیے سنجیدگی سے شروع ہوتا ہے۔یعنی لمحہ فکریہ ہے کہ ہم سنجیدہ ہیں کہ نہیں ہیں۔

غور طلب حوالہ جات:زبور 61:1۔5؛ یرمیاہ 29:4۔14؛1۔پطرس 5:6۔11؛2۔پطرس 1:3۔11

عملی کام :جب مشکل وقت میں مدد کی پیشکش کی جاتی ہےتو آپ کا  ردعمل کیا ہوتا ہے؟ جب ہم جان لیں کہ ہمیں خدا کی مدد                    کی ضرورت ہے  تو کیا ہم اس کی دعوت کو قبول کریں گے؟

  دُعا: اے  مالک میں تیرے بغیر بے اختیار ہوں۔ براہ کرم اب میری مدد کر فرما۔ آمین۔‘‘


انسپلیش سے لی گئ الوکو ایومیپوسی کی تصویر۔

Micha Jazz is Director of Resources at Waverley Abbey, UK.