اسی واسطے ہم یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ وطن میں ہوں خواہ جلا وطن اس کو خوش کریں (۲۔کرنتھیوں۹:۵)۔

جنوری ۱۹۹۶ءکو سیورینو کو چرچ میں اتوار کی عبادت کے بعدایک مسلمان انتہا پسند نے گولی مار کر اسی چرچ کے باہر ہلاک کر دیا تھا جہاں وہ پادری تھا۔ اس کی منگیتر جوائے اپنی پیارے شوہر کی موت کی گواہ تھی۔ انہوں نے مئی ۱۹۹۷ء کو شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا اور وہ مل کر خداوندکی خدمت کرنا چاہتے تھے۔

سیورینو تیس سالہ فلپائن کا رہنے والا تھا۔ وہ فلپائن کے جزیرےجولو کے قصبے الاٹ میں بڑی دلیری کے ساتھ مقامی مسلمانوں کے درمیان انجیل کی منادی کیا کرتا تھا۔اس کی ان کوششوں کی وجہ سے پہلے بھی اس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں اور شاید یہی اس کے قتل کی وجہ بھی بنی تھیں۔ سیورینونے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’اگر مجھے قتل کر دیا جائے تو میں مسیح یسوع کے لئے مر جانے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن میں خداوند کا کام کرتے ہوئے چرچ میں مرنا چاہوں گا‘‘۔

جوئے نے اپنی تکلیف کے باوجود اپنی زندگی فلپائن کے تاؤسگ اور ساما مسلمانوں تک خداوند کا کلام پہنچانے کے لئے وقف کردی۔ اس نے کہاکہ ’’میں نے یہ سیکھا ہے کہ میرے حالات کیسے بھی ہوں راستے میں کیسی بھی رکاوٹ آئے۔ ان مشکلات کی مدد سے خدا مجھے بدلتا ہے اور مجھے پہلے سے بہتر انسان بناتا ہے۔

سیورینو کی زندگی سے میں نے سیکھا کہ کس طرح وفاداری کے ساتھ خداوند کی خدمت اور عبادت کی جاتی ہے۔ اس کی موت سے میں نے سیکھا کہ مجھے ہمیشہ اپنے ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہنا چاہئے۔ اس حادثے کے ذریعہ سے میں نے سیکھا کہ ہر دن کو آخری دن کے مطابق گزارنا چاہئے۔

قادر مطلق خداوندتوجو اپنی حکمت سے ہماری زمینی زندگی کو ترتیب دیتا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم آنکھوں دیکھی چیزوں کی بجائے ایمان پر چلیں۔ ہمیں ایسا ایمان دے تاکہ ہم ایسے حالات میں قائم رہ سکیں جب ہمیں کچھ بھی سمجھ نہ آئےاس وقت بھی بطور باپ ہم تیرے سنبھالنے پر یقین رکھ سکیں۔یہ یقین دہانی ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کا باعث ہے کہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کی بدولت ہم تیرے ہاتھوں کے نیچے ہمیشہ حفاظت کے ساتھ ہیں۔

Dr Patrick Sookhdeo is the International Director of Barnabas Fund and the Executive Director of the Oxford Centre for Religion and Public Life.