موجودہ بحران جیسے حالات پہلے کبھی نہیں تھے ان حالات نے ہم سب کو ایک جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے اور جب کہ پولس کی ساری دعا حوصلہ افزائی کرنے والی ہے ، یہ اُس کی فلپیوں کے خط کی دعا کی مخصوص خصوصیت تھی۔ کہ خدا ،اس کے لوگوں اور وسیع پیمانے پر سب سے محبت رکھنا ہے۔ اس دعا کا تعلق موجودہ وبائی مرض کے دور سے زیادہ ہے۔

افسس کے قید خانے سے پولس فلپی کی کلیسیا کو لکھ رہا ہے ۔ اس فلپی کی کلیسیا کو اسی نے قائم کیا تھا (اعمال۱۶)۔ اس نے پہلے دن سے لے کر اب تک انجیل میں ان کی شراکت (کونونونیا) کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا ہے(فلپیوں۵:۱)۔ یہ مستقل شراکت یعنی پہلے دن سے اب تک فلپیوں کی کلیسیاکو پولس کی قید اور خوشخبری کے دفاع میں اس کے ساتھ شریک تھی(۷:۱۔۱۴:۴۔۲۰)۔

خدا کے لوگوں کے ساتھ شراکت رکھنا بالخصوص اس وبائی مرض کے دوران بہت ضروری ہے کیونکہ ان پردیسیوں کی مہمان نوازی کرتے ہوئے (عبرانیوں۲:۱۳) ، بیواؤں اور یتیموں کی مدد کرتے ہوئے (یعقوب۲۷:۱) ، بھائیوں سے پیار کرتے ہوئے (عبرانیوں۱:۱۳، ۳۔یوحنا۶۔۸) بےخبری میں فرشتوں کی خدمت کی گئی ۔ہم ایمانداروں کو ایسے کام بے ساختہ کرنے کی ضرورت ہے (اعمال ۵:۱۸، ۲۔کرنتھیوں۸:۱۔۵)۔ اعمال ۳۵:۲۰میں ، خداوند یسوع کے الفاظ کو یاد کرتے اور ان کا حوالہ دیتے ہوئے جو متفقہ طور پر چار اناجیل میں نمایاں ہے، پولس کہہ سکتا ہے کہ’’دینا لینے سے مبارک ہے‘‘۔

دکھوں میں شراکت۔(کوئینونیا) شراکت کے لئے یونانی لفظ ہے۔ دکھوں میں شراکت پولس کی تحریر کا اہم مضمون ہے ، خواہ وہ یسوع کے دکھوں میں شریک ہونا (فلپیوں۱۰:۳) اور اس کی خوشخبری کے لئے (۸:۱) ، یا جیسا کہ رومیوں۱۸:۸۔۲۷میں ہے کہ تکلیفیں دنیا کے ساتھ ساتھ ہیں۔

کیونکہ ہم ’’ مسیح کے دن ‘‘ (فلپیوں۱۰:۱، ۲۰:۲۔۲۱) ،اس کی میراث میں اس کے شریک ہو نگے یعنی پوری دنیا میں مسیح کی حکومت کے شریک ہونگے ، لیکن ’’بشرطیکہ ہم اُس کے ساتھ دکھ اٹھائیں تاکہ اُس کے ساتھ جلال بھی پائیں‘‘(رومیوں۱۷:۸)۔ ایذا رسانی کا شکار کلیسیائیں اس کا عملی طور پر تجربہ کررہی ہیں اور موجودہ وبائی مرض کی وجہ سے ساری مخلوق کا آہ و نالہ سب کے سامنے ہے۔

ایذا رسانی کا مقصد امید پیدا کرنا ہوتاہے۔ پولس جسمانی بیماریوں کا شکار تھا(گلتیوں۱۳:۴۔۱۴) ، وہ اپنی اس جسمانی تکلیف کا ذکر’’جسم میں کانٹے‘‘ کے طور پر کرتا ہے(۲۔کر۷:۱۲) وہ ’’امید‘‘کے بارے میں بڑے اعتماد سے بات کررہاہے۔۲۔کرنتھیوں۱۷:۴میں وہ یہ کہتا ہے کہ ’’کیونکہ ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے ازحد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے‘‘ ، کیونکہ مسیح جو ہم میں رہتا ہے’’وہ جلال کی امید ہے ‘‘ (کلسیوں۲۷:۱)۔

ہم ’’خدا کے جلال کی اُمید پر فخر کریں‘‘(رومیوں۲:۵) ، ایک ایساجلال جس میں ہمارا مردوں میں سے زندہ ہونا شامل ہوگا (رومیوں ۲۳:۸۔ ۲۵) جس کا پہلا پھل خود مسیح ہے (۱۔کرنتھیوں۲۰:۱۵) اور مخلوقات کا بحال(رومیوں ۱۹:۸۔۲۲)کیا جانا ہے۔ اس لئے پولس کلیسیا کی خاطر اپنی تکالیف پر ’’خوشی مناتا ہے‘‘ اور اس کے جسم میں ’’مسیح کی مصیبتوں کی کمی اس کے بدن یعنی کلیسیا کی خاطر اپنے جسم میں پوری کئے دیتا ہوں‘‘ (کلسیوں ۲۴:۱۔ ۲۵)۔ امید یقینی ہے ، پھر بھی اس کا تعلق مصیبتوں کے ساتھ ہے۔

رومیوں۳:۵۔۴میں وہ کہتا ہے کہ مصیبتیں برداشت پیدا کرتی ہیں جس کے نتیجے میں کردار تشکیل پاتا ہے اور کردار امید پیدا کرتا ہے ،’’اور امید سے شرمندگی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ روح القدس جو ہم کو بخشا گیا ہے اس کے وسیلہ سے خدا کی محبت ہمارے دلوں میں ڈالی گئی ہے‘‘ (رومیوں ۵:۵)۔

دوسروں کے دکھوں میں شریک ہونا۔ پولس فلپی کے لوگوں کو یاد دلاتے ہوئے کہتا کہ یہ فضل کے ساتھ انہیں عطا کیا گیا ہے کہ انہیں بھی ’’ اس کی خاطر دکھ بھی سہو اور تم اسی طرح جانفشانی کرتے ہو جس طرح مجھے کرتے دیکھا تھا اور اب بھی سنتے ہو کہ میں ویسی ہی کرتا ہوں‘‘(فلپیوں ۲۹:۱۔۳۰)۔ لہذا جیسا کہ عبرانیوں۳:۱۳ میں ہے ، ہمیں ’’قیدیوں کو اس طرح یاد رکھو کہ گویا تم ان کے ساتھ قید ہو اور جن کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے ان کو بھی یہ سمجھ کر یاد رکھو کہ ہم بھی جسم رکھتے ہیں‘‘، سب سے بھلا ئی سے پیش آئیں ، خاص کر اہل ایمان کے ساتھ(گلتیوں۱۰:۶) ، جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ضرورت مندوں کے ساتھ بانٹو (۲۔کرنتھیوں۸۔۹، فلپیوں۱۴:۴۔۱۵، رومیوں۲۵:۱۵۔۲۸) ، ’’غریبوں کو یاد رکھو‘‘ (گلتیوں ۱۰:۲) ، ’’کمزوروں کی مدد کرو‘‘ (اعمال۳۵:۲۰) اور دوسروں کے دکھوں کو پہچانیں۔

امید کے احساس کے ساتھ مصیبتوں کے درمیان دعا کرنا۔ یہ مصائب اور امید کی الہٰیات ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے پاس مردوں میں سے زندہ ہونے کی امید ہے۔یوں ہم تخلیق پر مسیح یسوع کی حکمرانی کے شریک ہیں۔ ہم پولس کی دعا جو فلپیوں ۹:۱۔۱۱ میں ہے کے پاس آتے ہیں ، اس کو دراصل ہم طویل دعاؤں میں شامل کر سکتے ہیں کیونکہ اس کا آغاز تیسری آیت سے ہوتا ہے۔

اول۔ پولس ایک دوسرے سے ہماری محبت کے لئے دعا کرتے ہیں (۹:۱) ۔پولس اپفردتس کے ذریعہ سے فلپی کی کلیسیا کو مالی مدد فراہم کرکے اُن کی مدد کرتا ہے (۱۴:۴۔۲۰)۔ یہ اس نے اس وقت کیا جب اس کی زندگی اور صحت داؤ پر لگی ہوئی تھی ، اور وہ ’’بیماری کی وجہ سے موت کے قریب‘‘تھا (۲۶:۲) ، یہ شاید ملیریا تھا یا ٹائیفائیڈ کوئی نہیں جانتا؟ ہمارے زمانے میں یہ کورونا وائرس کی طرح ہی ہوسکتا ہے اور خدا سے ہماری محبت کو’’علم ‘‘ اور ’’بصیرت کی گہرائی‘‘ کے ساتھ بہہ کر باہرنکلنا چاہئے۔

پولس جس محبت کی بات کرتا ہے اس میں دل و دماغ دونوں شامل ہیں یہ محض جذبات کی بات نہیں بلکہ یہاں پر آیت ۸:۱ میں الفت کے لئے استعمال ہونے والا لفظ ’’آنتوں‘‘ استعمال ہوتا ہے (یہ ۱:۲ میں ’’رحم دلی ‘‘کے لئے آیا ہے) ، لیکن ’’علم‘‘کی بنیاد ٹھوس مذہبی اعتقاد پر مشتمل خدا کی اور اس کی ’’انجیل‘‘ کی گہری سمجھ ہےجس کے لئے’’ ایک روح‘‘میں وہ’’ جانفشانی ‘‘کرتے ہیں (۲۷:۱)۔

اس خوشخبری کو بیان کرتے ہوئے ہمیں ساری توجہ مسیح یسوع ،اس کے تجسم ، موت یعنی ’’ صلیبی موت‘‘ ، قیامت ، صعود۔ یسعیاہ ۲۳:۴۵ کی تکمیل یعنی اس کی تخت نشینی پر مرکوز رکھنی ہوتی ہے۔جس میں ہر ایک گھٹنے کے اس کا سامنے جھکنا بھی شامل ہے ’‘خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمینیوں کا خواہ ان کا جو زمین کے نیچے ہیں‘‘اور ہر ایک زبان اس بات کا اقرار کرے گی کہ’’مسیح یسوع ہی خداوند ہے‘‘(۵:۲۔۱۱،اعمال۳۶:۱۰، رومیوں۱۱:۱۴)۔

جب ہم ’’مسیح کے دن ‘‘کے بارےمیں ان آیات کو دیکھتے ہیں (فلپیوں۱۱:۱) توہمیں ملتا ہے کہ مردوں میں سے زندہ ہونے والے ایمانداروں کو ’’جلالی بدن‘‘ملے گااور یسوع کی عظیم قدرت جس کی وجہ سے وہ’’ سب چیزیں اپنے تابع کر سکتا ہے‘‘(۲۱:۳)،یہ سمجھ بخشنے والی محبت اور بصیرت کی گہرائی اس قابل بناتی ہے کہ ہم سمجھ سکیں کہ انجیل کا تخلیق پر کیا اثر ہے۔ موجودہ دور میں ماتم کیا جا رہا ہےہمارے پاس بچنے اور نئے ہونے کی جلالی اُمید موجود ہے اور یہ سب کچھ مسیح کے کام اور روح کی وجہ سے ہے۔

اگر تخلیق خدا کی محبت کا اظہار ہےتو یہ خدا کی محبت کی وجہ سے ہی ہر طرح کی تباہ حالی ٹھیک ہو جائے گی جس سے ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا (رومیوں ۳۹:۸)۔یہی امید ہے جسے ہمیں تھامے رکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران ساری دنیا ، سماجی، سیاسی نیز مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اس وقت سارا ماحول خراب ہےاور یہ سلسلہ جاری ہے۔

کیونکہ مخلوقات کمال آرزوسے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے،دنیا کے حکمران مسیح یسوع اور خدا کی وراثت کے شریک ہیں (رومیوں ۱۶:۸۔۱۷)۔’’مسیح کے دن پر ہمارےفانی بدن اس کی مانند جلالی ہو جائیں گے‘‘اوراسی وقت ساری مخلوقات فنا کے بندھن سے آزاد ہو جائیں گی اور جلالی آزادی حاصل کریں گی جو خدا کے بیٹوں اور بیٹیوں کے لئے ہو گی(رومیوں۱۸:۸۔۳۰)۔

دوسرا۔ پولس کہتا ہے کہ یہ ’’علم سے پُر‘‘،’’ادراک کرنے والا‘‘ (جمالیات) محبت کے نتیجے میں اخلاقی سمجھ بوجھ آتی ہے تاکہ ہم صحیح اور غلط کے درمیان فرق کر سکیں یا ثابت کریں کہ ’’کیا درست ہے‘‘۔ ہم ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس نے اپنا اخلاقی معیار کھو دیا ہے ، ہر چیز جس سے جڑی ہوئی ہے اورہمیں اس طرح کی سمجھ کی ضرورت ہے۔ پولس نے مزید کہا کہ ’’مسیح کے دن تک صاف دل رہو‘‘(فلپیوں۱۰:۱)۔

’’مسیح کے دن ‘‘کے انتظارمیں جب ہمارے ’’جلالی بدن‘‘مسیح کی مانند ہوں گے مگر وہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں موجودہ زندگی میں ’’صاف دلی ‘‘اور ’’بے گناہ‘‘رہنے کی ضرورت ہے(۱۰:۱)۔پرانے عہد نامے میں یہ دونوں الفاظ کاہنوں کی ہیکل کی طہارت کی رسومات کے لئے استعمال ہوتے تھے لیکن یہاں پر پاکیزگی کے لئے بلایا جا رہا ہےجو اُس سے آگے کی بات ہےاس لئے ہمیں ’’روح القدس سے مقدس(جس کا لفظی مطلب مقدس ہونا ہے) ‘‘ بننے کی ضرورت ہے‘‘ (رومیوں ۱۶:۱۵۔ ۲۔تھسلنیکیوں۱۳:۲)اورخداوند یسوع مسیح اور روح سے دھل کر اورخدا کے لئے قابلِ قبول بنے ہیں (۱۔کرنتھیوں۱۱:۶)۔

تیسر۱۔ہمیں ’’مسیح کے دن ‘‘کے لئے امید کے ساتھ انتظار کرنا ہے کہ جب کہ عملی طور پر ’’راستبازی کے پھل سے بھرے رہو‘‘ (فلپیوں ۱۱:۱، ۹:۳)،ا س بات کا ثبوت ہے کہ ہم روح القدس سے بھرے ہوئے ہیں ہمیں ٹھیک طرح سے ،اخلاقی اور خدا کے مطابق زندگی گزارنے کی ضرورت ہے جیسے کہ ہم پہلے گلتیوں ۲۲:۵۔۲۳ میں دیکھ چکے ہیں۔گلتیوں۱۶:۵۔۲۶کےمطابق اگر ہم روح کے مطابق چلتے ہیں توپھر ہم جسم کی خواہشات سے مطمئن نہیں ہوں گےاور ہم روح کے تحت چلتے ہیں تویہ ہماری درست اخلاقی زندگی کو تقویت بخشتے ہیں(حزقی ایل ۳۶:۲۷،رومیوں ۱۴:۸)۔

ہم جب روح کے مطابق چلتے ہیں تو جسم کے کام نیست و نابود ہوجاتے ہیں(رومیوں۱۳:۸)۔اخلاقی زندگی ’’یسوع مسیح کے سبب سے راستبازی کے پھلوں سے بھرے رہو تاکہ خدا کا جلال ظاہر ہو‘‘(فلپیوں۱: ۱۱)۔یہ سب کچھ ہم مسیح سے’’سیکھتے ‘‘ہیں ۔اس میں ہم نے’’تعلیم پائی ‘‘جیسے کہ ’’سچائی مسیح میں ہے‘‘ (افسیوں ۲۰:۴۔ ۲۴)۔اس کی مثال ہمیں پہاڑی واعظ (متی۵۔۷)اور اناجیل میں مسیح کی تعلیمات میں ملتی ہے۔’’راستبازی کے پھلوں سے بھرے ہوئے‘‘ہونا ’’روح کے پھل ‘‘(گلتیوں۲۲:۵۔۲۳)کوظاہر کرنے کے برابر ہےاوریہ ایمانداروں کا امتیازی نشان ہونا چاہئے۔

نتیجہ۔مو جودہ عالمی وبا ، قوموں کے درمیان طاقت کے حصول کی جدوجہد اور ایمانداروں کی ایذارسانی انہیں گھٹنوں کے بل ہو کر بڑی شدت کے ساتھ دعائیں ایسی چیزیں ہیں’’جن کا بیان نہیں ہو سکتا‘‘(رومیوں۲۶:۸)۔ موجودہ بحران جیسے حالات پہلے کبھی نہیں تھے ،ان حالات نے ہم سب کو اکٹھا کردیا ہے اور جب کہ پولس کی ساری دعا ئیں متاثر کرنے والی تھیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس کی یہ دعا فلپیوں کی کلیسیا کے لئے تھی۔ خدا کے لوگوں اورخدا کے لئے اس کی محبت کو دیکھیں تو یہ سب کے لئے تھی جب کہ یہ وسیع پیمانے پر ہمارے موجودہ وبائی حالات میں ہمارے لئے بھی ہے۔

ہمیں ’’زیادہ سے زیادہ علم اور فہم و فراست کے ساتھ‘‘چلنے کی ضرورت ہے۔ خوشخبری میں ہمیں اپنی شراکت کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہے ،جس طرح فلپیوں کی کلیسیا نے ظاہر کیا تھا ، ہمیں بہت زیادہ دعا اور عملی پاکیزہ زندگی گزارنی چاہئےتھی اوریہ ’’سب کچھ خدا کے جلال اور پرستش کے لئے‘‘کرنا چاہئے۔

پادری ڈینی موزز۔مشرقی آسٹریلیا میں رہتے اور خدمت کرتے ہیں۔